Nation of Pakistan

Nation of Pakistan
Yes, We can bring change in Pakistan

Wednesday, June 29, 2011

آخر اور کبتک یہ عیاشیوں کا بندر بانٹ | Q.Aziz

 
چونسٹھ سال ہونے کو ہیں ہمارے ملک پاکستان کو آزادی ملے جسکے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی آساٰیشیں، اپنی جانیں تک گنوای اس امید پر کہ انکے بچے اس ملک میں آزادی کے ساتھ پھولیں پھلیں، خوشحالی اور کامیابیوں کے ساتھ اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے، جہاں صرف آپس میں محبتیں خلوص اور پیار ہو گا، ہم ایک آزاد ملک اور ایک پرچم کے ساے تلے دوسرے ملکوں کے ساتھ پایدار دوستی قایم کرینگے، کسی کو اپنا ماسٹرز بننے کی اجازت نہیں دینگے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکاجسکے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں اور اپنا تن من دھن جسکے لیے لٹا دیا تھا اسکا ہمسب نے کیا حال کردیا ہے۔ ہم کیوں اور کیسے ہر سال چودہ اگست کو جشن آزادی مناتے ہیں جبکہ ہمارا بچہ بچہ قرض کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے ۔ جہاں صرف اور صرف ایکدوسرے کے لیے نفرتیں ہیں، جہاں قتل و غارت کا بازار لگا ہوا ہے، حکمراں جماعت ہو یا اپوزیشن جماعتیں جو کہ اپنی عوام کے ڈالے گیے ووٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ ہمیشہ جعلی ووٹوں کے ذریعے آکر اپنا حق سمہجتے ہیں کہ جتنا جس سے ممکن ہو عوام کی دولت کو لوٹ لیں ، عام عوام پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ڈالتے رہیں اور خود اپنے بنکروں نما قلعے میں پولیس کے قافلے کے قافلے اپنی حفاظت پر مامور رکھیں جو کہ عام عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے، انلوگوں کو عوام کی پروا ہ کیوں ہو ، انہیں اس سے کیا کہ لوگ قتل ہورہے ہوں ، عورتوں کی عزت سے کھیلا جارہا ہو، معصوم بچوں کو اغوا کر کے معصوم جسموں کو بارود میں لپیٹ کر موت کے منہ میں ڈھکیلا جارہا ہو، آخر انکو ان سب سے کیا مطلب وہ یا انکے پیارے تو قتل نہیں ہورہے اور کبھی کوی ہوا بھی تو انکو اسکا کوی خاص افسوس نہیں بلکہ وہ تو اسکو بھی شہید بنا کر عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، انکی عورتوں کی عزتوں یا پھر انکے بچوں کی حفاظتیں تو کافی تعداد میں پولیس فورس کرتی ہی ہے تو انکو کس بات کا افسوس یا خوف ہو۔ ہمارے یہ لیڈران تو جب اپنی عوام سے ملنے بھی جاتے ہیں تو اپنی بلٹ پروف گاڑیوں میں گنوں سے لیس حفاظتی قافلے کے ساتھ اور پھر جب اپنی ہی عوام سے خطاب کرتے ہیں تو بھی کوسوں دور موٹے شیشوں کے پیچھے سے کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ اگر ان سب کہ بغیر وہ عوام میں چلے گیے تو اگلے روز انکی بڑی سی تصویر اخباروں میں چھپی ہوگی اور اسکے ساتھ لکھا ہوگا کہ مرحوم نے اپنی زندگی اپنی عوام کو دیدی۔

 
سوائے ایک یا دو سیاسی پارٹیوں کے ہر پارٹی باپ ماں بیٹا بیٹی چچا ماموں بھتیجے سالے یا اور کسی رشتے میں جکڑی ہوتی ہے اور کافی پارٹیوں میں تو ایسا بھی دیکھنے کو ملے گا کہ چچا ایک پارٹی میں تو بھتیجا دوسری میں تاکہ جو پارٹی بھی آے تو لوٹ مار تو انکی چلتی رہے ۔ میں ایک بات تو آج دعوے کہ ساتھ کہتا ہونکہ جو بھی لوگ اقتدار میں آتے ہیں انکے قریبی رشتے دار دوست احباب جنکا کہ شاید پارٹی سے بھی تعلق نہ ہوتا ہو وہ سب اچھے اچھے عہدوں پر تعینات ہو جاتے ہیں چاہے وہ فارن آفس کی پوزیشن ہو یا پھر اندورونے ملک انہیں کیا کہ وہ کولیفایڈعام پاکستانی در در پھرتے رہیں جاب حاصل کر نے کو۔
 
پاکستان آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، عوام بے حال اور عذاب میں مبتلا ہیں ، بجلی کی لوڈشیڈینگ جسکی وجہ سے تجارت چوپٹ ہوچکی ہے تو عام لوگ کی نیند نہیں ہوتی، کھانے کی روز مرہ کی چیزیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اسپر جنگل جیسا قانون کہ کوی شہیری اپنے کو محفوظ نہیں پاتا جس سے بات کرو ہر کوی ایک ہی جواب دیتا ہے کہ گھر سے باہر جایں اور پھر اگر زندہ واپس آجایں تو سمجھو کہ زندہ ہیں ۔ دور کیوں جاتے ہیں صرف چند مہینوں اور دنوں میں جو قتل و غارت گری ہوی ہے کوی پوچھنے والا ہی نہیں ہاں ہر واقعے کے بعد صدر،وزیراعظم وزیر داخلہ کا بیان آجاتا ہے کہ جلد ہی ہم مجرموں کو انکے کیے کی سزا دلوایں گے اور پھر چند دنوں بعد وہ چیپٹر بند ہوجاتا ہے جیسے کسی انسان کا قتل نہ ہوا ہو کوی جانور مارا گیا ہو۔ کوی انلوگوں کے گھروں میں جا کر دیکھے جنکے لوگ بیگناہ قتل کر دیے گیے کہ وہ مر مر کر زندگی بتا رہے ہیں ۔ جس ملک کی صرف اور صرف دو فیصد عوام ٹیکس دیتی ہو تو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہوگا ۔
 
میں آج ہاتھ جوڑ کر اﷲ کا واسطہ دیکر پاکستان کی ۹۸٪ عوام سے گڑگڑاکر التجا کر تا ہونکہ اب جاگ جاو ، اٹھکر گھروں سے باہر نکلو، ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے تیسرے کو اب جگاو کیونکہ ابتو ہمیں گھروں سے باہر نکلنا ہی ہوگا بیغرتی،بے حسی اور افرا تفری سے نکلنا ہی ہوگا ورنہ یہ دو فیصد عیاشوں کا ٹولہ ہمارے بزرگوں کی دلای ہوی آزادی کو پورے طور پر بیچ کر نکل بھاگیں گے۔ میں پاکستان کی میڈیا سے بھی التجا کرتا ہونکہ خدارا بند کرو بیکار کے فالتو پروگراموں کو کیوں اور تباہ کر رہے ہو ہماری عوام کو کیوں اور بے حس اور بے غیرت بنانے کا کام کر رہے ہو یہ ًکون بنے گا میرا کا پتی دیکھا کرکتنا تعمیری کام کررہے ہیں آپ یا پھر ٹاک شوز کی بھر مار لگی ہےً میں مانتا ہونکہ آپلوگوں نے عوام کو بیدار بھی کیا ہے تو خدارا اس وقت صرف اور صرف بیدار ہی کرو۔ ہمیں اب گھنٹو ں آن لاین چاٹ رومز میں ٹایم ویسٹ نہیں کرنا اور نہ ہی سوشل سایٹس پر جاکر ٹایم ذایع کرنا ہوگا بلکہ میں سے نکل کر ہم ہو کر پاکستان کے لیے کام کرنا ہوگا۔
 
آیں ہم سب ۹۸ فی صد پاکستانی متحد ہوکر صرف اور صرف ان لوگوں کو ووٹ دیکر اپنے ایوانوں میں بھیجیں جو دل میں پاکستان اور اپنی عوام کا درد محسوس کرتے ہوں جن پارٹیوں میں عام پاکستانی بھی کارکن سے قیادت کی کرسی پر پہونچ سکتا ہو، جہاں پر صرف رشتہ داروں یا خاص احباب کو عہدے نہ حاصل ہوں۔ جہاں وراسیت نہ موجود ہو۔ اور سب سے بڑھکر اب سے جو کوی بھی الیکشن میں امیدوار ہو اسے پاکستانی عوام کے ان مطالبات کو پورا کرنا ہوگا ورنہ وہ امیدوار نہیں ہوسکتے اور انکو پورا کروانے میں پاکستان کے چیف جسٹس صاحب سختی سے عمل کروایں اور ایسے لوگوں کو لیکر ٹیکس کمیشن قایم کریں جو بغیر کسی خوف اور ڈر کے ہر کسی سے ٹیکس کی وصولیابی کروایں چاہے کوی کتنا ہی اسرورسوخ والا ہو۔
 
١۔ ہر امیدوار کو پچھلے پانچ سال کا ٹیکس ریٹرن دیکھانا ہوگا اور نہ دینے کی صورت میں ان سالوں میں جو انکی انکم تھی اسکے حساب سے وہ سارے ٹیکس ادا کرنا ہوگا ورنہ وہ امیدوار نہیں ہوسکتے۔
۲۔حلفیہ لکھکر بیان جما کرانا ہوگا کہ وہ آیندہ ہر سال اپنی انکم کا ٹیکس وقت پر جمع کرینگے ورنہ کامیابی کی صورت میں جس ایوان کے وہ رکن ہونگے وہ ختم ہوجاے گی۔
میں پورے یقین سے کہتا ہونکہ یہی سب سے بڑی جڑ ہے اور ہمیں فوری طور پر اس سے نجات حاصل کرنا ہوگی ورنہ یہ وڈیرے سرمایہ دار غریب عوام کے ٹیکسوں پر اپنی دولتیں اور عیاشیوں کا بندر بانٹ کرتے رہینگے۔ میرے خیال سے تو امیدوار کے لیے تعلیم کی شرط بھی ان ہی لوگوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے لگوای ہے ورنہ ترقی یافتہ ملکوں میں میثالیں موجود ہیں جہاں کہ شہری کے لیے اتنا کافی ہے کہ اسے لکھنا پڑھنا آتا ہو اور ایسے کیی لوگ اپنے ملکوں میں ایوانوں میں پہونچ کر اپنے لوگوں کے لیے ایمانداری کے ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ ویسے ہی لوگ اپنے عام شہری کا دکھ درد محسوس کر سکتے ہیں ۔
 
جو کوی بھی پاکستان کے لیے اور اپنی پسی ہوی قوم کے لیے درد محسوس کرتا ہے اور میرے اس آرٹیکل میں سچای نظر آی ہو تو اسکو پڑھکر نہ رکھدیں خدارا ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے تیسرے کو جگایں اٹھایں کیونکہ اب وقت بلکل بھی نہیں ہے۔ خدارا ایک پل کے لیے اپنے ان بزرگوں کا سوچیں جنہوں نے اپنی جانیں دیکر ہمیں آذادی دلوای، اپنے ۹۸ فیصد عوام کا سوچیں جو بھوک پیاس، بجلی پانی تک کو ترسے ہوے ہیں۔ اﷲ تبارک تعالی سے اس دعاکے ساتھ کے ان تاریک اور بھیانک پلوں سے ، ذلت اور بے حسی کے ان لمحوں سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو روشنی اور خوشیوں محبتوں کا سماع عطا کردے جہاں ہر کوی عزت اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے رہ سکے۔ آمین
 


تیری خودی میں ہو اگر انقلاب پیدا
کچھ گماں نہیں یہ چار سو بدل جائے
 
تحریر ؛ ق۔ عزیز