ڈیر آنرایبل چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری صاحب ۔
آج میں آپکو یہ کھلا خط جو کہ شائد کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے لیکن کس سے کہیں اور کیسے کہیں کی وجہ سے نہ آسکی ہو آپ کو ایک واحد پاکستان کی امید مانتے ہوئے کہ اگر کوئی سچے دل سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو انصاف دلواسکتا ہے تو وہ آپکا مرتبہ اور حیثیت ہے جو اﷲتبارک تعالی نے آپکو اس وقت دی ہے اور آپکا کیا ہوا فیصلہ پاکستان اور پسی ہوی پاکستانی قوم کو ہر اس دلدل سے نکالنے میں مددگار ہوسکتا ہے جسمیں ہم دھنستے ہی جارہے ہیں اور اس دلدل سے ہمیں نکالنے والا نڈر اور وطن سے اور اپنی قوم سے محبت کرنے والا لیڈر نہیں مل رہا ہے۔
آج میں آپکو یہ کھلا خط جو کہ شائد کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے لیکن کس سے کہیں اور کیسے کہیں کی وجہ سے نہ آسکی ہو آپ کو ایک واحد پاکستان کی امید مانتے ہوئے کہ اگر کوئی سچے دل سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو انصاف دلواسکتا ہے تو وہ آپکا مرتبہ اور حیثیت ہے جو اﷲتبارک تعالی نے آپکو اس وقت دی ہے اور آپکا کیا ہوا فیصلہ پاکستان اور پسی ہوی پاکستانی قوم کو ہر اس دلدل سے نکالنے میں مددگار ہوسکتا ہے جسمیں ہم دھنستے ہی جارہے ہیں اور اس دلدل سے ہمیں نکالنے والا نڈر اور وطن سے اور اپنی قوم سے محبت کرنے والا لیڈر نہیں مل رہا ہے۔
١١ مئی
کو ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو خاص طور پر پنجاب میں کیونکہ وہ
پاکستان کا سب سے
بڑا صوبہ ہے وہاں کی عوام نے انکو بھاری تعداد میں ووٹ دیکر پاکستان پر
حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا اور اسطرح اس پارٹی کا حق بنتا ہے کہ ملک پر
حکمرانی کرے جوکہ وہ کررہے ہیں میں اور شائد کروڑوں پاکستانی
میری بات سے متفق ہونگے کہ الیکشن کے بعد ہر پارٹی دھاندلی کا الزام
لگانا شروع ہوجاتی ہے اور جیسا کہ ابھی بھی ہورہاہے اور انکے الزامات سچ
اور جھوٹ پر مبنی ہوسکتے ہیں لیکن آنرایبل چیف جسٹس صاحب جو
سوال اور اپیل میں آپکے سامنے رکھنے جارہاہوں اسکو آپنے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے قانون کے تحت سننا اور دیکھنا ہے اور اگر میرا جو کہ کروڑوں
پاکساننیوں کا سوال اور اپیل ہے اسمیں پاکستانی قانون ہمیں
اپیل کرنے کا حق دیتا ہے تو پھر آپکو فوری طور پر سوموٹو لینا ہوگا
کیونکہ آپنے پہلے بھی کافی چیزوں پر لیا ہے لیکن اس سوموٹو سے پاکستان اور ١۸ کروڑ
پاکستانیوں کا سوال ہے اور میں وہ سوال یا اپیل کرنے سے پہلے آپکو جو آپ
مجھ سے بہتر جانتے
ہونگے کہ اﷲ جب کسی انسان کو کوئی مقام دیتا ہے تو پھر اس انسان پر
ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تاریخ میں کس طرح لکھوانا چاہتا ہے۔ فیصلہ آپکے
ہاتھ میں ہے۔
اب
میں اپنے سوال اور اپیل کی طرف آپکی توجہ چاہتا ہوں کہ کیا اسلامی جمہوریہ
پاکستان
کا قانون کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کے دوران لاکھوں کروڑوں کی عوام کو
سنہرے باغ نہیں جھوٹ،دھوکے اور فریب سے ووٹ حاصل کر کے حکومت حاصل کرنے کی
اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟
اگر اجازت دیتا ہے تو پھر اس حکومت کو پاکستان کی قوم پر حکمرانی کرنے کا پورا اختیار ہے اور اگر نہیں تو پھر آپکو اسپر فوری طور پر سوموٹو لینا ہی ہوگا اور جھوٹ،فریب اور دھوکے سے حاصل اسکے وزیراعظم اور اسکی کیبنیٹ کو اور اسکے لیڈران کو برخواست کروانا ہی ہوگا اور یہ سب کچھ آپکے اس پوزیشن میں رہتے ہوے ہی ہونا ہوگا کیونکہ اس سے ۹۸٪ پسی ہوئی،دلدل میں پھنسی ہوئی پاکستانی عوام کا سوال ہے جو آج ہر گھر کے اندر اور باہر صرف اور صرف موت کو دیکھ رہے ہیں۔
آنرایبل
چیف جسٹس صاحب ہاں پاکستانی قوم نے اس جماعت کو بھاری تعداد میں ووٹ دیے
لیکن
اسکی وجہ اس جماعت کے لیڈران کے آن دی ریکارڈ عوام کے سامنے کی وہ
تقاریر ہیں جو انھوں نے الیکشن کے دوران کی تھیں وہ سارے مواد آپکو حاصل
کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کسی بھی ٹی وی چینل سے وہ آپ حاصل
کرسکتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں الیکشن ہوتے ہیں سیاسی پارٹیاں اور
انکے لیڈران عوام میں جاکر جو وہ عوام کے لیے کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی
تقریروں کے ذریعے اپنی عوام سے کہتے ہیں اور انہی بنیادوں پر لوگ
انہیں اپنا ووٹ دیتی ہیں اور اگر عوام سے کیے گیے وعدوں کو وہ پورا
نہیں کرتے توعوام انہیں انکے ٹرم کے دوران ہی حکومت سے معزول کروادیتی ہے
اور وہ بھی اس عوام سے جو پانچ سالوں میں کس طرح اپنی زندگیاں
گزار رہی تھیں جنسے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا گیا تھا انکو ان
لیڈران کی تقریروں سے زندگی کی امید نظر آئی کہ ہاں یہ سچ ہی کہہ رہے ہیں
انہیں حکمرانی کا تجربہ بھی ہے، یہ چھہ ماہ میں ہماری بجلی کی
پریشانیاں دور کردینگے، اب یہ پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو دنیا کے
سامنے کشکول لے کر بھیک نہیں مانگنے دینگے، یہ کرپشن کو ختم کرینگے اور
اسطرح کے سارے وعدے جو عوام سے انہوں نے کیے وہ عوام نے سچ
مان کر انکو ووٹ دیے لیکن سو دن اس حکومت کے پورے ہونے کے دوران آج ہم
ہر گھر میں اور گھر کے باہر اپنی اپنی موت کے منتظر ہیں اب تو حد یہ ہوگیی
ہے کہ خاندان کے خاندان اجتماعی طور پر خودکشیاں کرنے پر
مجبور ہو رہے ہیں جسکی ہمارے مذہب میں سختی سے ممانعیت ہے۔ کسی عورت
بچی کی عزت محفوظ نہیں۔ عوام بے حس ہوچکی ہے انہیں ایسا لگنے لگا ہے کہ جس
حال میں ہیں جیسے انہیں مارا جاے وہ سہتے رہیں۔ عام انسانوں
کی زندگیاں تو جانور سے بدتر محسوس ہونے لگی ہے۔
آنرایبل
چیف جسٹس صاحب جب کسی باشعور قوم کے محب وطن دانشور جو دل میں ملک اور قوم
کا
درد رکھتے ہیں اور کچھ تو حقیقت میں اپنے کالموں اور اپنے ٹی وی
پروگرام کے ذریعے اس پسی ہوی قوم کو ان ساری سیاسی پارٹیوں کے بارے میں
آگاہی دیتے رہے ہیں جن میں سے ایک سینیر محب وطن پاکستانی کولیمنسٹ
اور دانشور جناب حسن نثار صاحب کی بے چینی ناامیدی پڑھتا اور سنتا ہوں
تو نیند غایب ہوجاتی ہے انکی باتوں میں سچائی اور کرب و دکھہ محسوس ہوتا ہے
کیونکہ وہ یا ان جیسے محب وطن پاکستانی حقیقت میں خون کے
آنسو رو رہے ہونگے اور سوچ رہے ہونگے کہ کیا یہ سب دیکھنے کے لیے ہمارے
بزرگوں نے یہ ملک بنا کر دیا تھا۔ ہاں صرف یہی اب شائد ساری عوام کے لیے
رہ گیا ہے کہ تھوڑا بہت شور کرکے پھر خاموش ہوکر جو جو ظلم
ہوتا ہے اسکو سہتے رہو جب تک کہ کوئی کہیں سے آکر کسی طور پر موت کی
نیند نہ سلادے جیسا کہ ہورہاہے اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں۔
کیا
اب ریاض شاہد اور حبیب جالب جیسے لوگ نہیں ہیں جو ظلم کے خلاف اسی ملک میں
اپنے
اپنے شعبوں میں آواز اٹھاچکے ہیں اور انسانیت کا مظاہرہ کرچکے ہیں اس
زمانے میں جب عورتوں اور ماینوریٹیز کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب اپنے آپ
کو ہائی رسک میں ڈالنا تھا لیکن ان لوگوں نے اپنے ملک کے
لیے وہ رسک بھی لیا۔ یہ میرے بچپن کے زمانے یعنی سن ساٹھھ کی دہائی کا
واقعہ ہے جب بچے کو کسی بات کی سمھج نہی ہوتی ہے لیکن جب سے اس واقعے کو
پڑھا اپنے ملک کی اس زمانےکی لیڈینگ فلم ایکٹریس کو سلام
کرنے کا دل کرتا ہے جنہوں نے اسوقت کے بدنام گورنر ویسٹ پاکستان نواب
آف کالاباغ کے اس آرڈر کو ماننے سے صاف انکار کردیا کہ انکو شاہ آف ایران
کے سامنے رقص کرنا ہوگا اور انکے انکار کے باوجود زبردستی
گورنر نے اپنے آرمڈ لوگوں کی مدد سے اغوا کرواکر کھینچتے ہوے ذلیل کرتے
ہوے شرمناک طور پر گورنر کے گھر پر لاکر زبردستی رقص کروایا جو کوئی بھی
مجبور اور لاچار خاتون کرتی لیکن دوسرے ہی دن اس خاتون نے
یہ جانتے ہوئے بھی کہ جو وہ کرنے جارہی ہیں وہ گناہ ہے مگر یہ سوچکر
شائد انہوں نے ایسا کرنا بہتر سمجھا کہ جب اپنے ہی ملک کے حکمران اپنی
عورتوں کو دوسروں کے سامنے صرف اپنی ذاتی مفادات کے لیے زبردستی
نچوایں اور اسپر انہیں یہ بھی اندازہ ہو کہ ایک عورت کے لیے کوئی کچھ
نہی کریگا انہوں نے اپنی جان دینے کا فیصلہ کرلیا اور بہت مقدار میں سونے
کی گولیاں کھا لی لیکن کہتے ہیں نہ کہ موت کا دن معین ہے اس
سے پہلے نہی آتی اور انکی خودکشی کا سنکر ریاض شاہد اور حبیب جالب صاحب
مع خواجہ خورشید انور کے کیونکہ ان تینوں کا تعلق بھی کسی طور پاکستان فلم
انڈسٹری سے تھا دوسرے دن تیمارداری کے لیے اسپتال جاتے
ہیں جہاں اس سارے واقعہ کا ان سب کو ان خاتون ایکٹریس سے علم ہوتا ہے
اور ریاض شاہد صاحب جو کہ پڑھے لکھے نامور پاکستانی ھدایتکار تھے اس وقت
بہت جذباتی ہوگیے اور انہوں نے ان خاتون کی آنر کو ریسٹور
کرنے کے لیے عزت کے ساتھ انسے شادی کرلی اور اس ذلت آمیز واقعے کو لیکر
حبیب جالب صاحب نے غزل کہی جسکو پھر ریاض شاہد صاحب نے اپنی ایک فلم زرقا
بنائی جس میں وہ غزل ایک فلمی گانے کے طور پر آج بھی
پاکستانیوں کو یاد ہے اور وہ گانا بھی اسی لیڈنگ فلم ایکٹریس پر فلمایا
گیا تھا۔ میرے یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی محب وطن لوگ موجود ہیں
جو آج کے نواب آف کالاباغ جیسے حکمرانوں کے سامنے کھڑے
ہونے کو تیار ہیں اور حقیقت میں دیکھا جائے تو کچھ تو اپنے اپنے
پروفیشن کے ذریعے عملی طور پر سرگرم ہیں جسطرح حسن نثار صاحب اور یہاں پر
آنرایبل چیف جسٹس صاحب اگر میں ایک انسان اور اسکی پوری ٹیم کا
ذکر بہت ضروری سمھجتا ہوں جو ہر ہفتے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھکر
جسطرح کے کرپشن اور پاکستانی عوام کی زندگی کے ساتھ کھیلنے والے خطرناک
مافیا کو اپنے ٹی وی شو کے ذریعے پوری پاکستانی قوم کو ہر ہفتے
دکھاتا ہے اس ٹی وی شو کا نام سرعام ہے جسے ایک نوجوان محب وطن اینکر
اقرارالحسن اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اپنی جانیں جوکھوں میں
ڈالکر یہ ہمیں دکھاتا اور بتاتا ہے لیکن ہم اتےا بے حس اور بے
ضمیر ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی ان مافیاز کو پکڑنے اور سزا دینے کو تاکر
ہی نہیں ہے اور سارے ٹی وی کے پروگراموں کی طرح انکو بھی دیکھکر ہو ہا کرکے
پھر اپنی زندگی میں موت کو رقص کرتے ہوے دیکھنے لگ جاتے
ہیں اور پھر روزانہ کی طرح موت کی گنتی شروع کردیتے ہیں اور ابتو موت
بھی اتنی سستی نہی رہی کیونکہ ایک کفن اور دفن میں تقریبن ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے لگتے ہیں لیکن شائد پھر یہ سوچکر اسکا احساس نہیں کرتے کہ وہ کونسا ہمنے اپنی جیب سے
دینا ہے جو اسوقت پیچھے ہونگے وہ بھوگتیں۔
آنرایبل
چیف جسٹس صاحب اﷲ نے آج آپکو یہ مقام دیا ہے کہ آپ آنیوالی تاریخ میں اپنے
آپکو کل کے محمود کے طور پر دیکھنا پسند کرینگے جسنے اپنے غلام ایاز کے
ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوکر دنیا کو مساوات کی تعلیم دی تھی یا پھر محمد
علی جناح جنھیں آجتک ہر پاکستانی قائداعظم کے طور جانتا اور
مانتا ہے یا پھر آپ بھی ان سارے اونچے عہدوں پر فائز لوگوں میں سے ایک
ہونگے کہ جب تک اپنے عہدوں پر رہے شائد انکی عوام انکو جانتی ہو لیکن جانے
کے بعد انمیں سے کسی کا نام بھی وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں
کے ذہن میں نہیں رہتا ہے اور یہ فیصلہ صرف آپ ہی کرسکتے ہیں کہ آپ اپنی
اس پوزیشن میں رہتے ہوے دلدل کے آخری کونے پر کھڑی اس پسی ہوئی عوام کو
مہنگائی کے دلدل سے نکال کر اور کرپٹ اور زندگی کے روز و شب
میں موجود مافیاز سے نجات دلا کر تاریخ میں اپنا نام بھی محمود اور
قائداعظم کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں رکھوانا چاہینگے یا پھر ؟
آنرایبل
چیف جسٹس صاحب نہ ہی میں پروفیشن سے کوئی وکیل ہوں نہ ہی کوئی لکھنے والا
لیکن
ہاں ہوں پاکستان کی مٹی میں پیدا ہونے والا ایک پاکستانی اور کہتے ہیں
نہ کہ چاہے دنیا کہ کسی کونے میں رہو اس وطن کی مٹی جسنے تمکو جنم دیا ہر
وقت محسوس ہوتی ہے اور اپنے وطن کو اور اپنی عوام کو جب
اسطرح دلدل میں پھنسا دیکھتا ہوں تو رات کی نیند چلی جاتی ہے اور سارا
دن تڑپنے اور دعا میں گزرتا ہے کہ اﷲ کہیں سے پاکستان میں بھی ایک نڈر اپنے
ملک اور قوم سے محبت کرنے والا لیڈر بھیج دے جو ہمارے
ملک اور عوام کی خوشحالی اور گھروں میں اور گھروں کے باہر جو موتیں رقص
کرتی پھر رہی ہیں انسے نجات دلوادے۔ جہاں ہماری عورتوں اور بچیوں کی عصمت
کی حفاظت ہوسکے اور دو وقت کی روٹی سکون سے کھانا نصیب
ہوسکے۔ کہتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو پھر
جسطرح پاکستان میں روزانہ انسان قتل کیے جارہے ہیں پھر انسانیت کو کہاں
ڈھونڈیں ہم۔
آنرایبل چیف جسٹس صاحب بہت ساری امیدوں اور آس کے ساتھ میں یہ کھلا خط آپکو بھیج رہا
ہونکہ آپ اسکو ضرور پڑھینگے اور فوری ایکشن لینگے۔ اﷲپاک آپکے ذریعے اس ملک اور عوام کی فلاح اور بہتری کروادئے آمین ۔
اﷲ پاکستان اور پاکستانی عوام کا حامی و ناصر ہو۔ بہت ہی عزت اور نیک تمناوں کے
ساتھ۔
ق ۔ عزیز