چونسٹھ
سال ہونے کو ہیں ہمارے ملک پاکستان کو آزادی ملے جسکے لیے ہمارے بزرگوں
نے اپنی آساٰیشیں، اپنی جانیں تک گنوای اس امید پر کہ انکے بچے اس ملک
میں آزادی کے ساتھ پھولیں پھلیں، خوشحالی اور کامیابیوں کے ساتھ اپنے ملک
کو ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے، جہاں صرف آپس میں محبتیں
خلوص اور پیار ہو گا، ہم ایک آزاد ملک اور ایک پرچم کے ساے تلے دوسرے
ملکوں کے ساتھ پایدار دوستی قایم کرینگے، کسی کو اپنا ماسٹرز بننے کی اجازت
نہیں دینگے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکاجسکے لیے ہمارے
بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں اور اپنا تن من دھن جسکے لیے لٹا دیا تھا
اسکا ہمسب نے کیا حال کردیا ہے۔ ہم کیوں اور کیسے ہر سال چودہ اگست کو جشن
آزادی مناتے ہیں جبکہ ہمارا بچہ بچہ قرض کے دلدل میں دھنسا
ہوا ہے ۔ جہاں صرف اور صرف ایکدوسرے کے لیے نفرتیں ہیں، جہاں قتل و
غارت کا بازار لگا ہوا ہے، حکمراں جماعت ہو یا اپوزیشن جماعتیں جو کہ اپنی
عوام کے ڈالے گیے ووٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ ہمیشہ جعلی ووٹوں
کے ذریعے آکر اپنا حق سمہجتے ہیں کہ جتنا جس سے ممکن ہو عوام کی دولت
کو لوٹ لیں ، عام عوام پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ڈالتے رہیں اور خود
اپنے بنکروں نما قلعے میں پولیس کے قافلے کے قافلے اپنی
حفاظت پر مامور رکھیں جو کہ عام عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے، انلوگوں
کو عوام کی پروا ہ کیوں ہو ، انہیں اس سے کیا کہ لوگ قتل ہورہے ہوں ،
عورتوں کی عزت سے کھیلا جارہا ہو، معصوم بچوں کو اغوا کر کے
معصوم جسموں کو بارود میں لپیٹ کر موت کے منہ میں ڈھکیلا جارہا ہو، آخر
انکو ان سب سے کیا مطلب وہ یا انکے پیارے تو قتل نہیں ہورہے اور کبھی کوی
ہوا بھی تو انکو اسکا کوی خاص افسوس نہیں بلکہ وہ تو اسکو
بھی شہید بنا کر عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، انکی
عورتوں کی عزتوں یا پھر انکے بچوں کی حفاظتیں تو کافی تعداد میں پولیس
فورس کرتی ہی ہے تو انکو کس بات کا افسوس یا خوف ہو۔ ہمارے
یہ لیڈران تو جب اپنی عوام سے ملنے بھی جاتے ہیں تو اپنی بلٹ پروف
گاڑیوں میں گنوں سے لیس حفاظتی قافلے کے ساتھ اور پھر جب اپنی ہی عوام سے
خطاب کرتے ہیں تو بھی کوسوں دور موٹے شیشوں کے پیچھے سے کیونکہ
وہ سب جانتے ہیں کہ اگر ان سب کہ بغیر وہ عوام میں چلے گیے تو اگلے روز
انکی بڑی سی تصویر اخباروں میں چھپی ہوگی اور اسکے ساتھ لکھا ہوگا کہ
مرحوم نے اپنی زندگی اپنی عوام کو دیدی۔