Nation of Pakistan

Nation of Pakistan
Yes, We can bring change in Pakistan

Sunday, December 19, 2010

بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے Rashid Hussain

 
کہتے ہیں بحیثیت وزیر خارجہ 80 کی دہائ میں جب صاحبزادۃ یعقوب خاں بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر ڈھاکہ پہنچے تو انکے میزبانوں نے انہیں اس ہی گھر میں ٹہرایا جہاں کبھی وہ چیف مارشل لا ایڈمنسڈریڈرکی حیثیت میں رہتے تھے پر اب فرق صاف ظاھر تھا  ابکے وہ میزبان نہیں بلکے مہمان تھے چنانچہ جیسے ہی صاحبزادہ یعقوب کی گاڑی قیامگاہ کے پورچ میں داخل ہوئ انہوں نے حسرت بھری نگاہ ڈالتے ھوِِے کہا
 
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
 
اور آسمانوں کو یک بیک رنگ بدلتے ھوے تو ہم نے بھی دیکھا ھے، محسوس کیا ھے  ھم بھی کبھی اس ڈھاکہ میں تھے جو ھمارا تھا جہاں ھمارا بچپن گذرا تھا جہاں ھم نے معصوم شرارتیں کیں تھیں – جہاں میرے دادا، دادی اور نانا کی قبریں شائد اب بھی ھماری راہ تک رھی ھوں – جہاں ھم نے پہلے پہل کرکٹ کا بلا پکڑنا سیکھا تھا اور آصف اقبال کو ڈھاکہ اسٹیذیم میں بآؤنڈری کے پاس دوڑتے دیکھا تھا۔َ
 
پر 16 دسمبر 71 کو یک بیک سب کچھ بدل گیا، یکایک ھم محکوم ھوگۓ، ھم دشمن ٹہرادِۓ گۓ- مجھے وہ شام بخوبی یاد ھے  میرپور گیارہ نمبر کے باّّزار کے سامنے پیپل کے بڑے درخت کے نیچے افواج پاکستان کے اس گبھرو جوان کا چہرۃ مجھے اب بھی یاد آتا ھے جو بلک، بلک کر کہہ رہا تھا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ ھم مر جاتے۔
 

میں جو ساتویں جماعت کا طلبعلم تھا بہت کچھ سمجھنے سے قاصر تھا- یہ کیا ھو گیا تھا – یہ کیوں ھماری والدہ اس بات پر مظ تھیں کہ ھم پانچ بھائ اور ایک بہن ، جنمیں سب سے بڑا میں تھا، ڈائننگ ٹیبل کے حصار کے نیچے دبکے رھیں اور وہ خود کیوں میرا بلا ہاتھ میں لِۓ ھوۓ کمرے کے درواژہ پر کھڑیں تھیں جیسے کسی حملہ آورکا انتظار ھو            پر گفتگو تو کچھ پہلے سے ھوگی ۔ 25 اور 26 مارچ کی رات تو اس سے نو ماہ پہلے آیئ تھی – میں تو اسوقت سویا ھوا تھا لیکن میرے والد اور انکے چچا شکور دادا کے الفاظ دھواں، آگ اور گولی  تو میرے ذہن کے کسی گوشے میں آج تک رچے بسے ہیں – اب انداژہ ھوتا ہے کہ اس رات پاک فوج نے ملٹری آپریشن شروع کیا تھا اور ڈھاکہ شہر پر اپنی عملداری بحال کی تھی ہاِۓ پر یہ عملداری کی کیسی بحالی تھی جسکی عمر صرف نو ماہ تھی؟
 
اور اسکے فورا بعد مجھے تو وہ صبح بھی یاد ھے جب گیارہ نمبر میرپور کے لال میدان میں کہ جسکے سامنے ھمارا گھر بھی تھا، ھمیں یہ بھی احساس ھوا کہ چند بنگالیوں کو جو وہیں آس پاس رھتے تھے انہیں شھید بھی کیا گیا اور انمیں لیاقت کے دادا بھی تھے، وہ لیاقت جسکے ساتھ میں برسوں سے کھیلتا تھا اور وہ پچھلی گلی میں رہتا تھا اور پھر ھمارے مکان میں آس پاس کے  کئ بنگالی خاندانوں نے اندنوں  پناہ بھی  لے لی تھی جنہیں حالات کے کچھ معمول پر آنے کے بعد بابا نے ڈھاکہ شہر کے محفوظ مقامات تک پہنچوایا تھا کے میر پور غیر بنگالیوں کی بستی تھی۔
 
 
اور ان حالات کا بابا پر کچھ ایسا اثر ھوا کے اس دن جو انکی داڑھی بڑھی تو پھر انہوں نے کبھی شیو نہیں کیا – کہتے ھیں کہ بعد اژاں میرے والد سے جو ڈھاکہ کے سرکردہ صحافیوں میں تھے، مارننگ نیوژ ڈھاکہ کے کامرس ایڈیٹر تھے، ڈھاکہ پریس کلب میں انکے بعض بنگالی دوستوں نے کہا کہ تم کیسے غیربنگالی ھو جس نے 25 مارچ کے بعد داڑھی بڑھالی؟ اور پھر نو مہینے بعد ہی آسمان نے ایک اور کروٹ لی – 16 دسمبر کا سورج بھی طلوع ھوا – اور مجھے پلابی کے میدان جانا بھی یاد ہے کہ وہ کونسا یوم محشر سے کم تھا؟
 
میرپورجوکہ غیربنگالیوں کی بستی تھی اسکے باسیوں کو ایک دن حکم ھوا کہ ھم تم پر گولیوں اور توپوں کی یلغار بند کرتے ھیں، اس شرط پر کہ تمام مردوزن گھر سے نکل کر میدانوں میں جمع ھوں اور عورتیں گھر کے پاس فٹبال میدان میں، جی اس ہی میدان میں جہاں ھم نے بارھا جلیبی کو مخالفوں کو جھانسہ دیکر گول کرتے دیکھا تھا، پر ابکہ نوید یہ تھی کہ گھروں کی تلاشی لی جائئگی اور مردوں میں شرپسندوں کو چن کر اٹھایا جائیگا – مجھے ایک دفعہ مردوں کیساتھ پلابی کے میدان لیجایا گیا اور دوسری دفعہ میں امی کے ساتھ فٹبال کے میدان میں تھا کے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کے ساتویں جماعت کا یہ منحنی لڑکا بچہ ھے یا بڑا؟
 
جس دفعہ میں امی کے ساتھ تھا، چند گھنٹوں بعد ہی کھلے آسمان تلے پیاس کی ایسی شدت تھی کے میں نے اور مجھ جیسے بہتوں نے سامنے اس ہی تالاب سے پانی پیا جس سے بچوں کی گندگی بھی دھلائ جا رھی تھی کہ اندنوں ڈائپریا کا رواج نہیں تھا پر اگرھوتا بھی تو جہاں حقیقتاّ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ھوں وہان ڈآیپریا کا کیا سوال؟
 
اور دوسری دفعہ جب میں اپنے والد مرحوم کیساتھ، جنکا وصال اس سال کے اوائل میں ھوا، پلابی کے میدان جارھا تھا تو وہ غالبا یوم عاشور تھا کہ  راستہ بھر میرے والد میرے ناسمجھ اور معصوم ذھن میں یہ پیغام جاگژیں کراتے جارھے تھے کے بیٹا یہ دن ھمیں صبر اور استقامت کا سبق دیتا ہہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ہر حال میں سجدہ شکر بجالانا ھمارا فرض ٹھرا – غالبا وہ مجھے آنے والے وقت کیلۓ تیار کر رھے تھے۔
 
اور پھر جب پلابی کے اس میدان حشر میں لوگوں کی دور، دور تک  قطاریں لگ گئیں تو میرے ایک طرف خورشید بھائ بیٹھے تھے جو شپ انجینئر تھے اور چھٹیوں میں وہاں آکر پھنس گِۓ تھے اور اندنوں کینیڈا میں ھیں اور دوسری طرف بھائ شفیع تھے جو کراچی میں کسی بینک میں ملاژم ھیں – یہ دونوں نوجوان تھے اور وہاں پرائم ٹارگیٹ ھو سکتے تھے – اور پھر جب معائنہ کرنے والے حضرات ھمارے سامنے سے گژر رھے تھے تو ان دونوں کا چہرہ میری آنکھوں میں آج بھی گھومتا ہے، لگتا تھا کے انکے جسم سے کسی نے خون نچوڑ لیا ھو – اپنے دانتوں میں بنگال کی سر سبژ ژمین سے گھاس اکھاڑ کر کچرتے ھوۓ انکی حالت ژار اس قربانی کے بکرے سے قطعی مختلف نہیں تھی جسکی اب چھری کے نیچے آنیکی باری ھو۔
 
خیر سے یہ دونوں تو بچ گۓ لیکن اس میدان سے اس روژسینکڑوں گاڑیاں بھر کر ایسے لوگ اٹھاۓ گۓ جن پر شرپسند ھونیکا شبہ تھا یا کیا جاسکتا تھا – انمیں ھمارے سرور چچا بھی تھے- مہینوں اور برسوں بعد انمیں سے بہت تو واپس آگۓ، کچھ ایسے بھی ھیں جنکا 37 سال گژرنے کے باوجود آجتک کچھ پتہ نہیں۔
 
پھر میں اپنی گلی میں رھنے والے ان خانصاحب کو کیسے بھول جاؤں جنہیں ایک شام انکے گھر سے کچھ لوگ اٹھا کر لیگۓ اور کسی میں یہ جرآت نہ تھی کہ انھیں روک سکتا – گھر کے سامنے، لال میدان کے دوسری طرف انکی اینٹ کی بھٹی تھی خانصاحب اسدن ایسے گۓ کہ آجتک انکی کؤی خبر نہیں اور 73 میں انکی بیگم بیوہ ہو کر اور بچے یتیم ھو کر پنڈ دادن خان واپس ھوۓ۔
 
فیض نے کیا خوبصورتی سے اس سارے منظر کی تصویر کشی کی تھی
 
ہم کے ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
 
پھر بنینگے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
 
اور
 
کب نظر آئیگی بیداغ سبزے کی بہار
 
خون کے دھبے دھلینگے، کتنی برساتوں کے بعد
 
کیا سقوط ڈھاکہ ناگژیر تھا؟ کیا ہر بنگالی بشمول شیخ صاحب پاکستان سے علیحدگی پر مضر تھے؟ اسکا جواب میرے پاس نہیں – میں نے سقوط ڈھاکہ کو اکثر اپنے والد مرحوم کے چشمے سے دیکھا ھے اور یہ سوال جب ان سے کیا جاتا تھا تو وہ کہا کرتے تھے، میاں تم لوگوں نے شیخ صاحب کو اتنا بیوقوف سمجھہ رکھا ہۓ کے 25 مارچ کی رات ہر عوامی لیگی لیڈر کلکتہ بھاگ سکتا تھا ماسوآۓ انکے- دراصل انہیں پتہ تھا کہ اگر وہ بھی نکل گئے تو پھر معاملہ ختم تھا اور وہ نہیں گئے۔
 
پھر مئ 72 کے آخری دنوں میں بھٹو صاصب مشرق وسطی کے طوفانی دورے پر نکل رھے تھے، بلاخر ھم میرپور کی محصور بستی سے نکل کر شہر ڈھاکہ کے وسط میں اپنے دادا کے گھر رام کرشنا مشن روڈ پہنچے اور پھر آنیکے دوسرے ہی دن ابا سے ملنے انکے کئ دوست آۓ- وہ اپنے ساتھ آم کی ٹوکری بھی لاۓ  تھے جو ان حالات میں ہماری لۓ بڑی سوغات تھی کہ وہ ھمارے لۓ موسم کا پہلا پھل تھا۔
 
آنے والوں میں طاہرالدین ٹھاکر بھی تھے جو شیخ صاحب کی کابینہ میں وژیر بھی رھے، عوامی لیگ کے سوشل سیکریٹری مصطفئ سرور بھی تھے، بابا کے پرانے ساتھی ڈی- پی- بروا بھی تھے جو بنگلہ دیش سنگباد سنگستا (بی – اس – اس) کے چیف بھی رھے اور سینئر بینکر جناب محمد علی تھے۔
 
ابا سے بغلگیر ھوتے ھوۓ جناب طاہرالدین ٹھاکر نے تقریباّّّ روتے ھوۓ کہا ارشد بھائ آپ بھی کچھ نہیں کرسکے؟ میرے چھوٹے ذہن میں اسوقت یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ اس پر آشوب دور میں بابا کیا کرسکتے تھے – میں نے کچھ پہلے کے بابا اسوقت بقید حیات تھا، بلاخر ان سے یہ سوال کر ہی ڈالا- اور اسکا جواب مجھے یہ ملا کہ اگست / سپتمبر 71 میں سینئر عوامی لیگی لیڈرمطیع الرحمن جو مجیب کی کابینہ کے سینئر وژیر بھی ھوۓ، نے انہیں کلکتہ سے فون کیا اور کہا کہ ارشد عوامی لیگ کا ہندوستان نواژ دھڑا، جسکی قیادت جناب تاج الدین کے ہاتھ میں تھی، ہندوستان سے 25 سال کا معاہدہ کیا چاہتا ھے اور یہ کہ اگر یہ معاہدہ طۓ پا جاتا ہۓ تو پھر پاکستان کو یکجا رکھنے کی ہر امید دم توڑ دیگی – جناب مطیع الرحمن کا کہنا تھا کہ ارشد حکومت کو پیغام دو کہ اس سے پہلے کے یہ 25 سالہ معاہدہ طۓ پاۓ گفتگو کی میژ پر آجاۓ۔
 
بابا کا کہنا تھا کے انہوں نے پیغام رسانی کا یہ فریضہ تو انجام دیدیا تھا پر بقول انکے ایسا لگتا تھا کہ ذمہ دار حضرات پاکستان کو یکجا رکھنے میں کچھ ذیادۃ سنجیدہ نہیں تھے۔ حکومت سے گفتگو کی اس کوشش کی رسید سابق سیکریٹری خارجہ تنویر احمد خان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی دی تھی۔
 
خواتین و حضرات کیا ہر بنگالی، بنگلہ دیش کے قیام پر مضر تھا، اسکا جواب میں اب آپ پر چھوڑتا  ہوں۔