کہتے
ہیں بحیثیت وزیر خارجہ 80 کی دہائ میں جب صاحبزادۃ یعقوب خاں بنگلہ دیش کے
سرکاری
دورے پر ڈھاکہ پہنچے تو انکے میزبانوں نے انہیں اس ہی گھر میں ٹہرایا
جہاں کبھی وہ چیف مارشل لا ایڈمنسڈریڈرکی حیثیت میں رہتے تھے پر اب فرق صاف
ظاھر تھا ابکے وہ میزبان نہیں بلکے مہمان تھے
چنانچہ جیسے ہی صاحبزادہ یعقوب کی گاڑی قیامگاہ کے پورچ میں داخل ہوئ
انہوں نے حسرت بھری نگاہ ڈالتے ھوِِے کہا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اور آسمانوں کو یک بیک رنگ بدلتے ھوے تو ہم نے بھی دیکھا ھے، محسوس کیا ھے
ھم بھی کبھی اس ڈھاکہ میں تھے جو
ھمارا تھا جہاں ھمارا بچپن گذرا تھا – جہاں
ھم نے معصوم شرارتیں
کیں تھیں – جہاں میرے دادا، دادی اور نانا کی قبریں شائد اب بھی ھماری
راہ تک رھی ھوں – جہاں ھم نے پہلے پہل کرکٹ کا بلا پکڑنا سیکھا تھا اور آصف
اقبال کو ڈھاکہ اسٹیذیم میں بآؤنڈری کے پاس دوڑتے دیکھا
تھا۔َ
پر 16 دسمبر 71 کو یک بیک سب کچھ بدل گیا، یکایک ھم محکوم ھوگۓ، ھم دشمن ٹہرادِۓ گۓ- مجھے وہ شام بخوبی یاد ھے میرپور
گیارہ نمبر کے
باّّزار کے سامنے پیپل کے بڑے درخت کے نیچے افواج پاکستان کے اس گبھرو
جوان کا چہرۃ مجھے اب بھی یاد آتا ھے جو بلک، بلک کر کہہ رہا تھا کہ اس سے
تو بہتر تھا کہ ھم مر جاتے۔